تعارف کراچی سبزی منڈی
کراچی سبزی منڈی پاکستان کی سب سے بڑی منڈی ہے جو کہ تقریباً 110ایکڑ رقبہ پر قائم کی گئی ہے اس کا محل وقوع گڈاپ ٹاؤن سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے ایک کلومیٹر آگے شہر کی سمت سڑک کے شمال میں ہے سڑک سے تین مین گیٹ ہیں شہر کی سمت سے پہلا گیٹ آلو پیاز منڈی کا ہے جبکہ دوسرا گیٹ سبزی منڈی کا ہے اور تیرا گیٹ فروٹ منڈی کا ہے اس منڈی میں جتنا بھی مال آجائے ریٹ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ کراچی شہر کی آبادی 3کروڑ کے قریب ہے جو کہ اپنے اندر ایک ملک ہے۔دنیا بھر کے 100سے زائد ممالک کی آبادی کراچی کی آبادی سے کم ہے یہ منڈی 2002ء میں بنائی گئی اس سے پہلے سبزی منڈی کراچی کے اندرونی علاقے میں تھی جہاں سے آڑھتی نئی منڈی میں آنے کے لیے تیار نہ تھے مگر حکومت نے پولیس فورس کے ذریعے آڑھتیوں کو زبردستی پرانی منڈی سے بے دخل کیا۔
سبزی منڈی کی ترتیب
سبزی منڈی میں 13بلاک قائم کئے گئے ہیں جبکہ آکشن شیڈ ہر بلاک کے ساتھ ہے پاکستان کے دیگر علاقوں کی منڈیوں کے برعکس یہاں کے آڑھتی ہر قسمی سبزی نہیں بیچتے بلکہ ہر آڑھتی کے الگ آئیٹم ہیں مثلاًمرچ اور ٹماٹر بیچنے والے آڑھتی صرف مرچ اور ٹماٹر ہی بیچتے ہیں دھنیا پودینہ میتھی پالک والے صرف انہی آئیٹم تک محدود ہوتے ہیں جبکہ گاجر مولی شلجم والے بھی صرف اپنے آئیٹم تک محدود رہتے ہیں لیموں والے صرف لیموں بیچتے ہیں کدو توری بینگن بھنڈی والے صرف یہی آئیٹم بیچتے ہیں اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ تھوڑے آئیٹم ہونے کی وجہ سے ان کا کاروبار محدود ہوتا ہے بلکہ یہ لوگ تو روزانہ ٹرکوں کے ٹرک بیچ دیتے ہیں دھنیا پودینہ میتھی وغیرہ کو سب سے کم اہم سمجھاجاتا ہے مگر ایک ایک آڑھتی ٹنوں کے حساب سے اپنے آئیٹم فروخت کرتا ہے اور حساب کرنے کیلئے کئی کئی منشی اورڈیجیٹل ایپس کا استعمال کرتے ہیں اور ادھار تو اِلا ماشاء اللہ ہر آڑھتی کا کروڑوں میں ہوتا ہے بلکہ کئی آڑھتی تو ایسے بھی ہیں جن کا کاروبار اور ادھار اربوں روپے پر محیط ہے۔
کراچی میں آنے والی سبزیوں کے ذرائع
کراچی میں آنیوالی سبزی زیادہ تر ٹھٹھہ بدین اور ٹنڈو اللہ یار سے آتی ہے جبکہ ٹماٹر اور مرچ کے سیزن میں دادو سے بھی مال آتا ہے سبز مرچ کے خصوصی علاقے جھول،سنجھور واور بھان سعید آباد (جام شورو)ہے سیزن میں زیادہ تر مرچ کی زیادہ تر طلب یہیں سے پوری ہوتی ہے یہ منڈی ایک صارف منڈی ہے جتنا بھی مال آجائے یہیں کھپ جاتا ہے بیرونی منڈیوں کی طرف لدان نہیں ہوتا۔ٹنڈو اللہ یار کا علاقہ خواجہ سلطان آباد کراچی سبزی منڈی کا سب سے اہم ذریعہ ہے جہاں سے روزانہ 200سے زائد ٹرک آتے ہیں ٹھٹھہ اور بدین قریب ہونے کے باوجود زیادہ سپلائی نہیں دے پاتے کیوں کہ ان کے اپنے علاقے میں بھی کھپت ہوتی ہے بھنڈی کا سندھ کا سیزن ختم ہوتے ہی جنوبی پنجاب سے شروع ہوجاتا ہے۔
آکشن کے اوقات
ٹماٹر اور سبز مرچ کی بولی رات 10بجے شروع ہوجاتی ہے جو ساری رات جاری رہتی ہے جبکہ لیموں کی بولی صبح 6بجے شروع ہوجاتی ہے یہاں بیوپاریوں سے کمیشن 8فیصد کاٹا جا ہے جبکہ خریدار سے 13فیصد وصول کیا جاتا ہے یہ ایک سدا بہار منڈی ہے ہر سبزی پورا سال دسیتاب ہوتی ہے صرف سبزی کے آڑھیتوں کی تعداد تقریباً600 ہے۔سبزی منڈی کے مغرب میں آلو منڈی ہے جہاں ادرک، لہسن بھی بکتا ہے جبکہ مشرق میں فروٹ منڈی ہے فروٹ منڈی اور آلو پیاز منڈی کے برعکس سبزی منڈی میں فروخت کا طریقہ بذریعہ آکشن یعنی بولی کے ذریعے ہوتی ہے۔
کسانوں کیلئے سہولیات کی عدم دستیابی
یہ منڈی بنائی گئی تو 2بلاک اور آکشن شیڈ کسانوں کے لئے مختص کئے گئے مگر انتظامیہ کی ملی بھگت سے آڑھتیوں نے اپنے آپ کو کسان ظاہر کرکے ان بلاکوں پر قبضہ جمالیا اور کسان بے چارے رل گئے اس کے علاوہ منڈی کی شرقی دیوار کے ساتھ ساتھ کافی جگہ خالی رکھی گئی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ کسان ریہڑے اور ٹرالیوں میں سبزی فروٹ لائیں اور یہاں کھڑے ہو اپنی زرعی پیداوار خود ہی فروخت کریں ان سب خالی جگہوں پر بھی آڑھتی قابض ہوگئے اور کسانوں کے پاس سوائے اس کے کہ وہ آڑھتی کو بھاری کمیشن ادا کریں کوئی چارہ نہ رہا شروع شروع میں جب یہاں ابھی منڈی قائم نہ ہوئی تھی تو کراچی کی آبادی کے قریب زرعی زمینوں پر کثیر سبزی فروٹ کی کاشت ہوتی تھی مگر بے لگام ہاؤسنگ سکیموں نے تمام تر زرعی اراضی ہڑپ کرلی اور آہستہ آہستہ کسان بے دخل ہوتے چلے گئے آج کراچی کے تمام تر اضلاع اور 18ٹاؤنز میں کسی علاقے میں کوئی زرعی ایریا نہیں ہے اور کسانوں کو ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو اللہ یار میں پناہ لینا پڑی وہاں بھی زمینوں کی مستاجری انتہائی ظالمانہ ہے اور زرعی مداخل ازقسم کھاد بیج اور زرعی ادویات کی ہوش ربا قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں یہی وجوہات ہیں کہ اس شعبہ میں بھی اجارہ داریاں جنم لے رہی ہیں اور چھوٹے کسان محرومیت کا شکار ہوچکے ہیں۔
کسانوں کی حالت زار
کراچی کی شہری آبادی نے کثیر علاقہ گھیر رکھا ہے اور اکثر زرعی علاقوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن گئی ہیں جس کی وجہ سے کسان وہاں سے بے دخل ہوگئے ہیں باقی ماندہ قریبی علاقوں میں زمینیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں ٹھٹہ بدین اور ٹنڈو اللہ یار تک کے اضلاع کے کسان اپنی زرعی پیداوار یہاں لائے ہیں جس پر جہاں ان کو سفری اخراجات بے پناہ اُٹھانا پڑتے ہیں وہاں زمینوں کی مستاجری کے ریٹ بھی ظالمانہ حدتک بڑھ چکے ہیں نیز کھاد، بیج اور دیگر زرعی مداخل اتنے مہنگے ہوچکے ہیں کہ انہیں کچھ خاص نہیں بچتا جبکہ آڑھتی اور ہول سیلرسستے میں خرید کردہ مال بھاری منافع پر فروخت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسان آہستہ آہستہ اپنا پیشہ چھوڑ رہے ہیں اور ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اپنی زرعی ضروریات امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تقسیم برصغیر سے قبل یہ علاقے جو پاکستان میں ہیں پورے ہندوستان کو خوراک سپلائی کرتے تھے۔مگر اب ٹماٹر پیاز ادرک لہسن کھیرا اور دیگر سبزی فروٹ امپورٹ ہوتا ہے۔
حکومتی ترجیحات اور عوامی امنگیں
لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ وہ ماچس کی ڈبیا سے لے کر ٹریکٹر تک حکومت کو بھاری ٹیکس دیتے ہیں لہٰذاان کے مسائل کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکمران طبقات کو اس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے قیام پاکستان سے پہلے انگریزی استعماری سسٹم سے جڑے خوشامدی عناصر جو بعد میں ہمارے حکمران بن گئے ان کی ترجیحات عام لوگوں سے مختلف ہوگئیں انہوں نے عوام کے خون پسینے سے نچوڑے گئے ٹیکسوں سے بجائے پاکستان کے اداروں کو مضبوط کرنے کے اپنے ذاتی محلات اور عیاشیوں پر خرچ شروع کردیا یہ خطہ جو تقسیم برصغیر سے قبل پورے ہندوستان کو خوراک سپلائی کرتا تھا زرعی طور پر خود کفالت سے دور ہونے لگا اور اب تو یہ صورت حال ہے کہ دالیں سرسوں، چینی کے علاوہ پیاز ٹماٹر کھیرے اور دیگر سبزیاں تک امپورٹ کرنے تک نوبت آپہنچی ہے حکمرانوں کو اس بات کی اس لئے بھی پرواہ نہیں ہے کہ وہ تو پہلے ہی اپنے استعمال کیچیزیں غیر ممالک ہی سے منگواتے تھے یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی فرانس سے منگواتے تھے نواز شریف دور میں ایک دفعہ جب ملک میں دالیں ناپیدہوگئیں تو عوام سڑکوں پر آگئے اور مظاہرے شروع تو اسحاق ڈار نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ چکن کھالیں کیونکہ وہ دال سے زیادہ سستی ہے ایسا ہی ایک مشورہ روس کی ملکہ کیتھرائن نے بھی ان مظاہرین کو دیا تھا جنہوں ں ے شاہی محل کا گھیراؤ کرلیا تھا کہ وہ روٹی کی بجائے کیک کیوں نہیں کھالیتے دراصل حکمران یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ عام لوگ کس قدر بے حال ہیں اور اُن کے کیا مسائل ہیں۔
کراچی کے عوام کی حالت زار
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بھر میں حکمران طبقات کی اپنی ایک الگ دنیا ہے ان کے رہنے کے علاقے بھی الگ ہیں جہاں کشادہ سڑکیں پارک اور دیگر سہولیات ہوتی ہیں ان کے سفر کے لئے لگثری گاڑیاں کو سیرو تفریح اور علاج بھی اپنے ملک سے نہیں کراتے یہ اشرافیہ پانی بھی اپنے ملک کا نہیں پیتے بلکہ فرانس سے منگواتی ہیں ان کے پالتو جانور جو خوراک کھاتے ہیں عام آدمی کو اس کا بھی تصور نہیں کرسکتا ان کو کبھی بھی آدمی آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں ہوسکتا عام علاقوں سے اگر ان کو گزرنا ہو تو یہ لوگ انہیں ایئر کنڈیشنڈ گاڑی کا شیشہ تک نہیں کھولتے سبزی منڈی سے قریب ترین آبادی 20کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور کراچی کے آخر سے آنیوالے لوگوں کو 80کلومیٹر سے زائد کا سفر کرنا پڑتا ہے اب ایک عام آدمی جس نے چند کلو سبزی یا فروٹ لینا ہوتا ہے وہ تو سبزی منڈی آنے سے رہا اب ہوتا یہ ہے کہ سرمایہ کار لوگ جو سبزی منڈی خرید کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں گودام اور اڈے بنالیتے ہیں جہاں وہ من مانی قیمتوں پر سبزی وغیرہ فروخت کرتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ کراچی کے 18ٹاؤنوں میں سے ہر ٹاؤن میں سبزی منڈی قائم کرے تاکہ لوگوں کو اپنے گھر کے قریب ترین سستی سبزی وفروٹ مل سکے اور گراں فروشوں کی اجارہ داری ختم ہو لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے اور منتخب نمائندوں کو بھی مجبور کیا جائے اور ان مسائل کے حل کیلئے کوشش کریں۔