شیرانی (بلوچستان) میں سبزی و فروٹ کی پیداوار، مقامی کھپت اور برآمدات بلوچستان کا ضلع شیرانی اپنی زرخیز زمین، مناسب آب و ہوا، اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں مختلف سبزیاں اور پھل سال بھر میں اگائے جاتے ہیں، جو نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ ڈاؤن کنٹری میں بھیجے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم شیرانی میں سبزی اور فروٹ کے موسم، مقامی کھپت اور برآمدات کے متعلق تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔ شیرانی میں سبزیوں اور پھلوں کے پیداوار کے موسم شیرانی کی آب و ہوا معتدل سے خشک ہے، جو مختلف اقسام کی فصلوں کے لیے موزوں ہے۔ یہاں کی زرعی زمین میں سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کے لیے بہترین امکانات موجود ہیں۔ سبزیوں کے موسم: موسم سرما (نومبر تا مارچ): اس عرصے میں پالک، گوبھی، مولی، شلجم، گاجر اور مٹر جیسی سردیوں کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ موسم گرما (اپریل تا ستمبر): گرم موسم میں ٹماٹر، بینگن، کریلا، کدو، بھنڈی اور مرچ جیسی سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ سال بھر کاشت ہونے والی سبزیاں: پیاز، آلو، ہری مرچ، دھنیا اور پودینہ سال کے بیشتر حصے میں دستیاب رہتے ہیں۔ پھلوں کے موسم: بہار (فروری تا مئی): اس موسم میں آم، خوبانی، آڑو اور انار کی کاشت ہوتی ہے۔ گرمیوں اور خزاں (جون تا اکتوبر): انگور، سیب، بادام، اور انجیر کی فصل تیار ہوتی ہے۔ سردیوں (نومبر تا جنوری): مالٹا، کینو اور کھجور کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ مقامی کھپت شیرانی کی زرعی پیداوار یہاں کے رہائشیوں کی بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ سبزیاں اور پھل مقامی بازاروں میں فروخت کیے جاتے ہیں، جہاں کسان براہ راست یا تھوک فروشوں کے ذریعے اپنی پیداوار فروخت کرتے ہیں۔ مقامی منڈیوں میں طلب: سبزیوں کی مانگ: روزمرہ کے کھانوں میں استعمال ہونے والی سبزیاں مقامی منڈیوں میں کافی مقبول ہیں، جیسے آلو، پیاز، اور ٹماٹر۔ پھلوں کی مانگ: مالٹا، انار، انگور اور سیب جیسے پھل زیادہ تر لوگ شوق سے کھاتے ہیں، اور یہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ زراعت سے جُڑی معیشت: کسانوں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سبزیوں اور پھلوں کی فروخت پر ہے، جو شیرانی کی مقامی مارکیٹ میں ایک اہم شعبہ ہے۔ ڈاؤن کنٹری میں برآمدات شیرانی میں پیدا ہونے والی سبزیاں اور پھل نہ صرف بلوچستان کے دیگر اضلاع بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور ملتان میں بھیجے جاتے ہیں۔ برآمد ہونے والی اہم سبزیاں: ٹماٹر اور پیاز: یہ دو سبزیاں زیادہ مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں اور ملک بھر میں ان کی طلب زیادہ رہتی ہے۔ آلو: مقامی استعمال کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے بڑے شہروں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ کریلا اور بھنڈی: ان سبزیوں کی مانگ خاص طور پر گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ برآمد ہونے والے اہم پھلانار: شیرانی کا انار اپنی میٹھاس اور ذائقے کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے اور پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھیجا جاتا ہے۔ انگور: انگور کی بہترین اقسام یہاں اگائی جاتی ہیں، جو ملک کی دیگر منڈیوں میں فروخت ہوتی ہیں۔ سیب اور خوبانی: یہ دونوں پھل کوئٹہ ، کراچی اور دیگر شہروں کی مارکیٹ میں بھجوائے جاتے ہیں۔ برآمدات کو درپیش چیلنجز اور ممکنہ حل چیلنجز: نقل و حمل کے مسائل: شیرانی سے دیگر علاقوں تک سبزیوں اور پھلوں کی ترسیل میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ سڑکوں کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ کولڈ سٹوریج کی کمی: کولڈ سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے جلد خراب ہونے والی پیداوار کا نقصان ہوتا ہے۔ مارکیٹ تک رسائی: کسانوں کو اپنی پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملتی کیونکہ وہ زیادہ تر مقامی منڈیوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ جدید زرعی تکنیک کی کمی: جدید کاشتکاری طریقوں اور جدید بیجوں کے فقدان کی وجہ سے پیداوار محدود رہتی ہے۔ ممکنہ حل: بہتر نقل و حمل: حکومت اور نجی ادارے بہتر سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کریں تاکہ سبزیاں اور پھل جلدی اور محفوظ طریقے سے دیگر شہروں تک پہنچ سکیں۔ کولڈ سٹوریج کے قیام: شیرانی میں کولڈ سٹوریج بنائے جائیں تاکہ پیداوار کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھا جا سکے اور نقصان سے بچا جا سکے۔ جدید زرعی تکنیک: کسانوں کو جدید بیج، کھاد، اور پانی کے بہتر استعمال کے بارے میں تربیت دی جائے تاکہ وہ زیادہ اور معیاری پیداوار حاصل کر سکیں۔

  • مارکیٹ تک بہتر رسائی: کسانوں کو براہ راست ملک کے بڑے شہروں کی مارکیٹ تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنی پیداوار کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں۔ نتیجہ شیرانی میں سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں تک بھی پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں کی زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی، بہتر نقل و حمل اور کولڈ سٹوریج کی سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ اگر ان مسائل پر توجہ دی جائے تو شیرانی کی زرعی پیداوار مزید ترقی کر سکتی ہے، جس سے نہ صرف مقامی کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔