تعارف لاہور راوی روڈ فروٹ منڈی

یہ پنجاب کی سب سے بڑی اور پاکستان کی دوسری بڑی منڈی ہے محل وقوع لاری اڈہ سے شمال مغرب میں 2کلومیٹر گوجرانوالہ روڈ سے لنک ہے اس کے شمال میں دریائے راوی 1کلومیٹر ہے فروٹ منڈی کا  رقبہ 25ایکڑ اور دکانوں کی تعداد 80ہے جبکہ منڈی کے باہر شمالی اور جنوبی سمت میں سٹور بنائے گئے تھے وہاں بھی آڑھتی حضرات نے اپنے دفاتر قائم کردیئے ہیں اور دکانوں کے نمبرز 120تک پہنچ گئے ہیں جنوبی دکانوں پر علیحدہ نمبرنگ ہے اس منڈی میں 300سے زائد کمپنیاں کاروبار کررہی ہیں۔

کولڈ سٹوریج

یہاں تقریباً40کولڈ سٹوریج ہیں جہاں فروٹ کی سٹوریج ہوتی ہے اور پورا سال منڈی کو ترسیل جاری رہتی ہے کچھ کولڈ سٹوریج خصوصاً کیلے کے کولڈ سٹوریجء منڈی کے قریب ہیں جبکہ اکثر کولڈ سٹوریج مضافات میں ہیں جہاں سے فروٹ کی ترسیل میں دشواری ہوتی ہے مگر منڈی کے قریب ترین کوئی جگہ کولڈ سٹور بنانے کے لئے دستیاب نہیں ہے اگرچہ اس بات کا خیال منڈی کے قیام کے وقت رکھنا چاہئے تھا مگر ارباب اختیار نے چونکہ اس میں کوئی دلچسپی نہ لی اور یہ منڈی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا شکار ہوگئی اب حالت بہت ہی زیادہ بگڑ چکی ہے۔

مقامی فروٹ

مقامی پھلوں میں سڑابری،لیچی،بیر انگور، جامن، فالسہ، تربوز، خربوزہ، شہتوت، امرود، ناشپاتی اور انار شامل ہیں ان پھلوں کا موسم جب عروج پر ہوتا ہے تو یہاں سے باہر کی منڈیوں میں لدان بھی ہوتا ہے ٹنل فارمنگ سے یہاں گرما کی کاشت عروج پر ہے جو کہ مارچ کے مہینے میں منڈی آجاتا ہے جبکہ افغانستان اور بلوچستان کا گرما اگست کے بعد آتا ہے بلوچستان کا فروٹ جولائی میں آنا شروع ہوجاتا ہے جس میں آلو بخارہ خوبانی آڑو جاپانی پھل اور سیب شامل ہے ستمبر سے بلوچستان کا فروٹ شروع ہوجاتا ہے اکتوبر سے انگور گرما اور قندھاری آنار شروع ہوجاتا ہے جو کہ دسمبر کے آخر تک رہتا ہے بلوچستان کا سبز کلو سیب بھی دسمبر کے آخر تک تازہ حالت میں دستیاب ہوتا ہے اس کے بعد کولڈ سٹوریج کا مال آنا شروع ہوجاتا ہے۔

فروٹ منڈی کے مسائل

یہ منڈی اپنے قیام کے وقت شہر سے باہر کھلی جگہ پر تھی مگر اب آباد ی کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس کے ارد گرد گنجان آبادی ہے اور صبح بولی کے اوقات میں اتنا رش ہوجاتا ہے کہ منڈی کے سامنے کا مین روڈ تقریباً بلاک ہوجاتا ہے اور لوگوں کی آمد ورفت خصوصاً سکول بچے وقت پر اسکول نہیں پہنچ پاتے نیز سڑکیں ہر دفعہ اونچی ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے فروٹ منڈی اب سڑک سے 4فٹ نیچے ہے ہلکی سی بارش منڈی کو جوہڑ میں تبدیل کردیتی ہے اور کیچڑ کئی ہفتے متعفن ہوکہ مچھروں کی افزائش اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے منڈی آنے جانے والے لوگ اس کیچڑ کے جوہڑ میں سے گزرتے ہیں آڑھتیوں کی یونین نے کئی بار مارکیٹ کمیٹی محکمہ زراعت اور دیگر ارباب اختیار کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے مگر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔
فروٹ منڈی میں آڑھتیوں کے علاوہ پرچون فروش بھی ہوتے ہیں یہ لوگ منڈی کی اندرونی سڑکوں کو گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا گزرنا محال ہوجاتا ہے ان کے علاوہ فروٹ کے ہوسل سیلر ہوتے ہیں جن کو ماشہ خور کہاجاتا ہے یہ لوگ آکشن شیڈ پر آڑھتیوں کی ملی بھگت سے قابض ہوتے ہیں اور وہاں انہوں نے مستقل تعمیرات کی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آڑھتی حضرات فروٹ کی بولی سڑک پر شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے آمد ورفت انتہائی محدود ہوجاتی ہے اکثر مسائل چونکہ آڑھتیوں کے خود پیدا کردہ ہیں اس لئے وہ حل ہونے کی بجائے مستقل ہوجاتے ہیں۔

آڑھتیوں کی لیڈر شپ

آڑھتیوں کی یونین یہاں انتشار کا شکار ہے یوں تو پاکستان کی اکثر سبزی فروٹ منڈیوں میں بدنظمی عروج پر ہے مگر لاہور میں کچھ زیادہ ہی ہے فروٹمنڈی میں چار یونینیں بن گئی ہیں جن کی علیحدہ علیحدہ باڈی اور عہدیدار ہیں ان کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا سب ایک دوسرے ی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں شہری انتظامیہ تو ویسے بھی انگریزی استعمار کی یاد گار ہے ان کو کچھ پرواہ نہیں کہ عوام کے کیا مسائل ہیں عوام کے نمائندے اگرآپس ہی میں لڑ رہے ہوں تو ارباب حکومت سکون سے راج کرتے ہیں۔

نئی منڈی کا قیام

کچھ عرصہ پہلے محکمہ زراعت کی طرف سے منڈی کو باہر محمود بوٹی کے علاقے میں منتقل کرنے کا مژدہ سنایا گیا تھا جہاں 120ایکڑ زمین مختص کردی گئی ہے مگر اب پتہ چلا ہے کہ وہ زمین سابق آرمی چیف راحیل شریف کو الاٹ کردی گئی تھی جہاں اس نے ہاؤسنگ سکیم لانچ کردی ہے اب لاہور شہر کے قریب اتنی زمین دستیاب ہی نہیں جہاں منڈی کو منتقل کیا جاسکے جس کی وجہ سے یہ منڈی لوگوں کے لیے ایک مستقل عذاب بن چکی ہے۔
شہر کے ماسٹر پلان میں مستقبل کو مدنظر نہیں رکھا جاتا حالانکہ منڈیاں شہریوں کی انتہائی اہم ضرورت ہوتی ہیں جن کو آبادی کے پھیلاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے پلان کرنا چاہئے مگر افسر شاہی اپنے اللے تللے میں مصروف رہتی ہے ان کی اپنی ہی ایک الگ دنیا ہے جو کہ عام لوگوں سے بالکل جدا ہے ان کے علاقوں میں جائیں تو لگتا ہی نہیں کہ ہم پاکستان میں ہیں بلکہ یورپ لگتا ہے عام لوگوں کا پاکستان ایک اور ہی دنیا ہے جہاں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں گلیاں گندے پانی کے جوہڑ ہیں سکولوں اور ہسپتالوں تک میں صفائی ناپید ہے آبادی گنجان ہے راستے تنگ گرد وغبار اور دھوئیں کی آلودگی ہے خوراک اور دوائیں ناخالص ہیں کیمیکل سے بنا زہریلا دودھ کھلے عام بکتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

لیڈر شپ کے مسائل کا حل

یہ مسائل جو لاینہل لگتے ہیں حل کیے جاسکتے ہیں اس کے لیے اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے کوئی بھی طبقہ اگر اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے تو آپس میں بات چیت کا آغاز کرے شمع سے شمع جلاتے ہوئے شعوری جدوجہد آگے بڑھتی ہے نااتفاقی اور بدنظمی بے توجہی اور لاتعلقی کا ثمر ہے جب لاتعلقی اور بے توجہی ختم ہوجائے اور اس کی جگہ توجہ اور تعلق کا چلن عام ہوجائے تو پھر مسائل کے حل ہونے میں دیر نہیں لگتی اتفاق میں طاقت ہے اپنے مسائل خود بھی حل کئے جاسکتے ہیں اور اتفاق کی طاقت سے ارباب حکومت سے بھی منوائے جاسکتے ہیں خود ساختہ یونین بازی کو آڑھتی اپنی مشترکہ کوشش سے ختم کرسکتے ہیں یونین کا سربراہ بننے کی خواہش اس لیے یعنی لوگوں میں جنون کی حدتک ہے کہ وہ اس سے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں حکومت سے مراعات حاصل کرتے ہیں جن سے وہ خود یا ان کے چند حمائتی فیض یاب ہوتے ہیں آڑھتی حضرات شعوری جدوجہد سے بات چیت کو آگے بڑھائیں اور یونین بازوں کے خود ساختہ حلقہ بندیاں توڑدیں اور حقیقی قیادت کا انتخاب کرلیا تاکہ منڈی سے گنجلک مسائل کو حل کیا جاسکے۔