تمپ، جوکہ تربت (صوبہ بلوچستان) کا ایک زرخیز اور خوبصورت علاقہ ہے، زراعت کے لحاظ سے ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس علاقے میں مختلف اقسام کی سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں جو مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں اور ممالک کو برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔ تمپ کی زراعت اور پیداوار پر بات کرتے ہوئے، ہمیں یہاں کے موسم، مقامی کھپت، اور برآمدات کی تفصیل پر غور کرنا ہوگا۔ موسمی حالات اور زراعت تمپ کا موسم زیادہ تر گرم اور خشک ہے، لیکن یہاں کی زمین زراعت کے لیے کافی زرخیز ہے۔ علاقے میں گرمیوں کے دوران درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے، جبکہ سردیوں میں یہ 10 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ یہاں پانی کا حصول زیادہ تر زیر زمین پانی اور نہری نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ عوامل سبزیوں اور پھلوں کی مخصوص اقسام کی کاشت کے لیے سازگار ہیں۔ تمپ میں پیدا ہونے والی سبزیاں تمپ میں کئی اقسام کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں جن میں ٹماٹر، پیاز، بینگن، مرچ، اور کدو شامل ہیں۔ یہ سبزیاں نہ صرف مقامی طور پر استعمال ہوتی ہیں بلکہ ان کی کھپت بلوچستان کے دیگر شہروں اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ہوتی ہے۔ ٹماٹر: تمپ میں پیدا ہونے والے ٹماٹر اپنی لذت اور معیار کے لیے مشہور ہیں۔ یہ ٹماٹر مقامی منڈیوں میں فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔ پیاز: پیاز تمپ کی ایک اہم پیداوار ہے جو زیادہ تر مقامی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ بینگن اور مرچ: ان سبزیوں کی کاشت تمپ میں کافی مقدار میں کی جاتی ہے، اور یہ مقامی کھانے کے ذائقے کو بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ تمپ میں پیدا ہونے والے پھل تمپ اپنے اعلیٰ معیار کے پھلوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے، جن میں کھجور، آم، انار، اور تربوز شامل ہیں۔ کھجور: تمپ میں پیدا ہونے والی کھجور اپنی لذت، غذائیت، اور معیار کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی مشہور ہے۔ خاص طور پر “مضافاتی کھجور” اور “کلہاری کھجور” جیسی اقسام کو عرب ممالک میں پسند کیا جاتا ہے۔ آم: یہاں کے آم ذائقے میں میٹھے اور خوشبودار ہوتے ہیں۔ تمپ کے آم پاکستان کے دیگر علاقوں میں فروخت کیے جاتے ہیں اور ان کی برآمد بھی کی جاتی ہے۔ انار: انار تمپ کا ایک اور اہم پھل ہے جو صحت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ تربوز: گرمی کے موسم میں تمپ کے تربوز کی مانگ بڑھ جاتی ہے، جو نہایت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔ مقامی کھپت تمپ کے لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے زیادہ تر مقامی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں۔ سبزیاں اور پھل بازاروں میں مناسب داموں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ مقامی ضروریات کو پورا کرنا: تمپ کی زراعت سے پیدا ہونے والی سبزیاں اور پھل مقامی آبادی کی خوراک کا ایک بڑا حصہ بناتے ہیں۔ خوراک کی دستیابی: موسمی پیداوار کی وجہ سے، مقامی لوگوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک میسر آتی ہے جو ان کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔ برآمدات اور تجارت تمپ کی زرعی پیداوار ن ہ صرف مقامی مارکیٹ میں اہمیت رکھتی ہے بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں اور بیرون ملک بھی برآمد کی جاتی ہے۔ ملکی سطح پر تجارت: تمپ کی سبزیاں اور پھل بلوچستان کے دیگر شہروں جیسے کوئٹہ، گوادر، اور حب کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی برآمدات: کھجور، آم، اور انار جیسی اعلیٰ معیار کی پیداوار عرب ممالک، ایران، اور خلیجی ریاستوں کو برآمد کی جاتی ہے۔ درپیش چیلنجز اگرچہ تمپ کی زراعت میں کافی ترقی ہوئی ہے، لیکن یہاں کے کسان کئی مسائل کا سامنا کرتے ہیں: پانی کی قلت: زیر زمین پانی کی کمی اور ناقص نہری نظام زراعت کو متاثر کرتا ہے۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی کی کمی: جدید تکنیک اور مشینری کے فقدان کی وجہ سے پیداوار کی مقدار اور معیار متاثر ہوتا ہے۔ منڈیوں تک رسائی: بہتر ٹرانسپورٹیشن اور مارکیٹ کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسان اپنی پیداوار کو مناسب قیمت پر فروخت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ماحولیاتی اثرات: موسمیاتی تبدیلی اور غیر متوقع موسم زراعت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ممکنہ حل اور سفارشات تمپ کی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں: پانی کے وسائل کی بہتری: جدید آبپاشی کے نظام کو اپنانا اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے۔ جدید زراعت کی تربیت: کسانوں کو جدید زراعت کی تکنیک اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی جانی چاہیے۔ مارکیٹنگ اور تجارت کی سہولیات: کسانوں کو ان کی پیداوار کے لیے بہتر منڈیاں فراہم کی جائیں اور برآمدات کے لیے حکومتی سطح پر تعاون کیا جائے۔ زرعی تحقیق: نئی اور زیادہ پیداواری فصلوں کی تحقیق کے لیے تحقیقی مراکز قائم کیے جائیں۔اختتامیہ تمپ، تربت کا ایک زرعی لحاظ سے زرخیز علاقہ ہے، جہاں کی پیداوار نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر یہاں کے کسانوں کو مناسب وسائل اور سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ علاقہ زراعت کے میدان میں مزید ترقی کر سکتا ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔