تعارف کراچی فروٹ منڈی
کراچی سبزی فروٹ منڈی پاکستان کی سب سے بڑی منڈی ہے جو کہ 110ایکڑ پر مشتمل ہے محل وقوع گڈاپ ٹاؤن سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے ایک کلومیٹر آگے شہر کی طرف سڑک کے شمال سمت میں ہے سڑک کی طرف سے تین مین گیٹ ہیں شہر کی سمت سے پہلاگیٹ آلو پیاز منڈی کا ہے جبکہ دوسرا گیٹ سبزی منڈی کا ہے اور تیسرا گیٹ فروٹ منڈی کا ہے منڈی کے چاروں طرف اونچی چار دیواری ہے اندر پہلے گیٹ سے آخر تک آلو پیاز کے بلاک ہیں دوسرے یعنی درمیان والے گیٹ سے سبزی منڈی کے بلاک ہیں جبکہ آخری گیٹ سے فروٹ منڈی کے بلاک شروع ہوجاتے ہیں۔اس منڈی کا قیام 2002میں عمل میں آیا لوگ نئی منڈی میں آنے پر تیار نہیں تھے مگر حکومت نے پولیس فورس اور بلڈوزر بھیج دیئے اور پرانی منڈی میں کام سے روک دیا مجبوراً پھر آڑھتی نئی منڈی میں آئے۔
منڈی کی ترتیب
فروٹ منڈی میں 9بلاک ہیں پہلے 4بلاکوں میں مکس فروٹ والے ہیں 5اور 6بلاک میں چیکو، پپیتہ فالسہ رس بھری وغیرہ کے آڑھتی ہیں جبکہ 7اور 8مین تربوز،خربوزہ، گرما والے ہوتے ہیں 9واں بلاک منڈی کی شرقی دیوار کے ساتھ ہے جسے ACWکا نام دیا گیا ہے ان بلاکوں کے مغربی سمت لمبائی میں ایک بلاک ہے جسے Lبلاک کہتے ہیں یہ بلاک فروٹ منڈی کو سبزی منڈی سے جدا کرتا ہے شمال کی طرف آخر میں کیلا منڈی قائم کی گئی ہے جہاں شیڈ اور عارضی دکانیں بنائی گئی ہیں باقاعدہ بلاک نہیں بنایا گیا کولڈ سٹوریج بھی ساتھ ہیں جہاں کیلا کنو مالٹا اور سیب وغیرہ کی سٹوریج کی جاتی ہے فروٹ ایکسپورٹ امپورٹ کرنے والی کمپنیوں کے دفاتر بھی اسی منڈی ہیں جب مقامی طور پر کسی فروٹ کا موسم نہیں ہوتا تو فروٹ باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے جبکہ آم، سیب اور کنو مالٹا ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
کھپت کا اندازہ
کراچی کی منڈی ایک صارف منڈی ہے 3کروڑ کی ایک بڑی آبادی ہے سب کچھ یہیں کھپ جاتا ہے جتنا بھی مال آجائے ریٹ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا فروٹ کی فروخت صبح 6بجے شروع ہوجاتی ہے جو کہ عموماً 11بجے تک جاری رہتی ہے اس منڈی میں بیوپاریوں سے کمیشن 8فیصد اور خریدار سے 13فیصد لیا جاتا ہے یہاں بولی نہیں ہوتی بلکہ ہاتھوں کو کپڑے سے چھپا کہ خفیہ اشاروں کے ذریعے بھاؤ تاؤ ہوتا ہے پاکستان بھر کی کسی چھوٹی سے چھوٹی منڈی میں بھی یہ کام نہیں ہوتا ہر جگہ اوپن آکشن ہوتی ہے مگر کراچی کا باوا آدم ہی نرالا ہے نیز یہاں کمیشن ریٹ بھی انتہائی ظالمانہ ہے دیگر منڈیوں میں 4تا6فیصد خریدار کیلئے کمیشن ہے اور بیوپاریوں کے لئے اس کے نصف ہوتا ہے اور کئی منڈیوں مثلاً اسلام آباد اور لاہور بیوپاریوں سے کچھ بھی نہیں لیا جاتا۔ کیلے کے آڑھتی کچا کیلا بولی کے ذریعے فروخت کرتے ہیں جبکہ پکا ہوا کیلا ماشہ خور بیچتے ہیں۔فروٹ کے آرھتیوں کی تعداد 500کے لگ بھگ ہے جن میں سے نصف کے قریب اپنی ذاتی دکانوں کے مالک ہیں اور باقی کرایہ دار ہیں۔
منڈی کی خصوصیات
یہ منڈی چونکہ بہت بڑی منڈی ہے اس لئے دیگر چھوٹی منڈیوں کی طرح یہاں کے آڑھتی ہر قسمی فروٹ نہیں بیچے بلکہ شعبہ وائز سپیشلسٹ ہیں مثلاً بلوچستان کے فروٹ سیب،انار، انگور اور خوبانی بیچنے والے صرف اپنے مخصوص آئیٹم ہی بیچتے ہیں کیلا بیچنے والے صرف کیلا بیچتے ہیں تربوز خربوزہ بیچنے والے کنو مالٹا مٹھا بیچنے والے پپیتہ بیچنے والے امرود اور بیر بیچنے والے چیکو فالسہ جامن اور رس بھری بیچنے والے سبھی اپنا اپنا آئیٹم بیچتے ہیں دوسری شعبہ میں دخل نہیں کرتے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کم پیمانے پر کام کرتے ہیں بڑی منڈی اور کثیر خریدار ہونے کے باعث ہر آڑھتی کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے اندازی اور اپنے تھوڑے سے مخصوص آئیٹم بھاری مقدار میں فروخت کرتے ہیں کراچی میں تین کروڑ کی آبادی کے لئے ایک ہی منڈی ہونے کی وجہ سے یہاں کے آڑھتیوں کی ایک اجارہ داری قائم ہوگئی ہے۔
بے لاگ تبصرہ
اس منڈی کا قیام کراچی انتظامیہ کی حواس باختگی اور بے حسی کا کھلا ثبوت ہے نزدیک ترین آبادی بھی منڈی سے 20کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور کراچی کے آخری سرے سے آنے والے 80کلومیٹر سے زائد کا سفر کرکے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے جو منڈی سے مال خرید کر لے جاتے ہیں اور کراچی کے مختلف حصوں میں انہوں نے اپنے گودام اور سیل پوائنٹ بنائے ہوئے ہیں اور یہ بھاری شرح منافع پر مال فروخت کرتے ہیں اور اپنے علاقے میں اجارہ داری قائم کرلی ہے شہریوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ان لوگوں سے اپنی کھال اتروانی ان کی مجبوری بن گئی ہے۔
حکومتی اقدامات وترجیحات
ملک بھر میں اب تک تو یہی دکھایا گیا ہے کہ حکومت کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں نوکر شاہی کی اپنی ہی ایک الگ دنیا ہے یہی حالت کراچی کا ہے 2000 آڑھتیوں کی حامل ایک بڑی منڈی میں انتظامی بدنظمی عروج پر ہے مارکیٹ کمیٹی کے اہلکار آڑھتیوں سے واجبات وصول کرلیتے ہیں مگر سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے بلکہ خرد برد کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت منڈی کی فلاح وبہبود کے معاملے میں فنڈز کی کمی کا رونا روتی ہے سرکاری اہلکار جعلی رسیدیں دے دیتے ہیں جن کا پیچھے کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا منڈی میں تجاوزات کی بھرمار ہے سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں جگہ جگہ گڑھے اور گندے پانی کے جوہڑ ہیں سیوریج کے ناقص ہونے کی وجہ سے گندہ پانی سڑک پر اکٹھا ہوجاتا ہے جس سے تعفن بدبو اورمچھروں کی بھرمار ہوچکی ہے آڑھتیوں نے اپنی دکان کے آگے کی جگہ پرچون فروشوں کو کرایہ پر دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے سڑک پر سے گزرنا بھی محال ہوجاتا ہے گاڑیوں کی پارکنگ میں بھی بہت بدنظمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے رش کے اوقات میں سڑکیں بلاک ہوتی ہیں۔
کراچی مسائل کا حل
کراچی میں 18ٹاؤن ہیں ہر ٹاؤن میں سبزی فروٹ منڈی ہونی چاہئے تاکہ لوگوں کو تازہ ترین سبزی فروٹ نزدیک ترین اور سستے داموں دستیاب ہوسکے یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بھر میں حکمران طبقات کی اپنی ایک الگ دنیا ہے ان کے رہنے کے علاقے بھی الگ ہیں جہاں کشادہ سڑکیں پارک اور دیگر سہولیات ہوتی ہیں ان کے سفر کے لئے لگثری گاڑیاں کو سیرو تفریح اور علاج بھی اپنے ملک سے نہیں کراتے اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم وہ جن اداروں میں دلاتے ہیں کوئی عام شہری اس کا تصور ہی نہیں کرسکا اعلیٰ تعلیم تو لازمی بیرونی ممالک میں ہی دلاتے ہیں یہ اشرافیہ پانی بھی اپنے ملک کا نہیں پیتے بلکہ فرانس سے منگواتی ہیں ان کے پالتو جانور جو خوراک کھاتے ہیں عام آدمی کو اس کا بھی تصور نہیں کرسکتا ان کو کبھی بھی آدمی آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں ہوسکتا عام علاقوں سے اگر ان کو گزرنا ہو تو یہ لوگ انہیں ایئر کنڈیشنڈ گاڑی کا شیشہ تک نہیں کھولتے پاکستان کے عوام کو قومی وصوبائی الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے انہیں چاہئے کہ اپنے مسائل کے حل پر مشتمل منشور ترتیب دیں اور اپنے ہی طبقے کے افراد میں سے انتخاب کریں تب ہی ان کے مسائل حل ہوں گے۔